

کراچی میں پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والی بچی امل کی ہلاکت پر لیے گئے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس گلزار احمد نے’ سندھ ہیلتھ کمیشن کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کوئی غیرقانونی دباؤ ثابت ہوا تو محکمے کو ختم کردیں گے۔
سپریم کورٹ میں گزشتہ برس پولیس اور مشتبہ ملزمان کے درمیان ہونے والے انکاؤنٹر میں 10 سالہ بچی امل عمر کی ہلاکت سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ حکومت سندھ اور وزیراعلیٰ کی جانب سے متاثرین کو معاوضہ دینے کی پالیسی کے مطابق امل عمر کے والدین کو معاوضہ دینے کی منظوری دے دی گئی ہے۔
دوران سماعت امل عمر کے والدین کے وکیل نے کہا کہ سندھ حکومت کی جانب سے جو معاوضہ دیا جارہا ہے اسے قبول کرنا امل کے والدین کے لیے شرمناک ہوگا۔
جس پر امل کیس کی سماعت کرنے والے دو رکنی بینچ کی سربراہی کرنے والے جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ جن پولیس اہلکاروں کی وجہ سے امل کی جان گئی ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی اس پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ سید کلیم امام نے کہا کہ ان اہلکاروں کو معطل کرکے ان کے خلاف مقدمے کا اندراج ہوچکا ہے۔
مزید پڑھیں: امل ہلاکت کیس: معذرت چاہتا ہوں کہ اس معاملے کو ختم نہیں کرسکا، چیف جسٹس
جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ ‘ جن کی غفلت سے بچی کی جان گئی کیا انہیں صرف معطل کردینا کافی ہے؟’۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ‘ پولیس رپورٹ میں اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ دوبارہ ایسا واقعہ پیش نہیں آئے گا، اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اہلکاروں کی تربیت کا عمل بھی شروع کیا گیا ہے’۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ‘ کیا 2 دن کی تربیت کا عمل کافی ہے؟ پولیس والے 2 دن میں کتنا کچھ سیکھ جائیں گے ؟’۔
جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ تربیت کا عمل کچھ عرصے بعد جاری رہے گا۔
جسٹس گلزار احمد نے عدالت میں موجود چیئرمین سندھ ہیلتھ کمیشن کی بھی سرزنش کی اور ریمارکس دیے کہ ‘ عدالتی حکم کے بعد آپ کے لوگ، لوگوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں، اگر آپ کی جانب سے کوئی غیرقانونی دباؤ ثابت ہوا تو پورے محکمے کو ختم کردیں گے’۔
یہ بھی پڑھیں: امل ہلاکت کیس: تحقیقاتی کمیٹی نے پولیس رپورٹ کے جائزے کےلیے مہلت مانگ لی
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس میں مزید کہا کہ ‘ آپ لوگوں کے خلاف سنگین الزامات ہیں، اگر وہ ثابت ہوئے تو عدالت کوئی رعایت نہیں برتے گی’۔
دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ سندھ ہیلتھ کمیشن نے کراچی سپریم کورٹ رجسٹری میں ایک رپورٹ جمع کروائی تھی اور عدالت سے دوسری جامع رپورٹ جمع کروانے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دینے کی درخواست کی۔
جس پر سپریم کورٹ نے سندھ ہیلتھ کمیشن کو رپورٹ جمع کروانے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ایک ماہ لیے ملتوی کردی۔
امل کیس
خیال رہے کہ گزشتہ برس اگست میں کراچی کے علاقے ڈیفنس میں پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان ہونے والے مبینہ پولیس مقابلے کے دوران امل عمر کو گولی لگی تھی۔
بعد ازاں ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ساؤتھ جاوید عالم اوڈھو نے اعتراف کیا تھا کہ امل عمر کو لگنے والی گولی پولیس اہلکار کی جانب سے فائر کی گئی تھی۔
امل عمر کو گولی لگنے کے بعد ان کے والدین نے انہیں نیشنل میڈیکل سینٹر (این ایم سی) منتقل کیا تھا جہاں طبی امداد دینے سے انکار کیا گیا جس کے بعد وہ دم توڑ گئی تھی۔
مقتولہ کی والدہ بینش عمر نے بتایا تھا ہسپتال انتظامیہ نے انہیں بچی کو جناح ہسپتال یا آغا خان ہستپال منتقل کرنے کو کہا تھا اور این ایم سی نے امل کو منتقل کرنے کے لیے ایمبولینس دینے سے بھی انکار کردیا تھا حالانکہ بچی کے سر پر زخم تھے۔
یہ بھی پڑھیں: امل کیس: مبینہ پولیس مقابلے کے بعد فرار ہونے والا ملزم گرفتار
اس واقعے کے بعد چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے مبینہ پولیس مقابلے کے دوران گولی لگنے سے جاں بحق ہونے والی 10 سالہ امل عمر کے واقع کا ازخود نوٹس لیا تھا۔
ازخود نوٹس کی سماعت کی پہلی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ نجی ہسپتالوں کے لیے بھی کوئی ایس او پی ہونا چاہیے، کوئی ہرجانہ بچی کو واپس نہیں لا سکتا، ایسا لگا جیسے ہماری بچی ہم سے جدا ہوگئی، ایک بچی چلی گئی لیکن باقی بچیاں تو بچ جائیں۔
بعد ازاں عدالت نے امل کی ہلاکت کی تحقیقات کرنے کے لیے سابق جسٹس خلجی عارف کی سربراہی میں 7 رکنی کمیٹی قائم کرتے ہوئے 2 ہفتوں میں رپورٹ طلب کی تھی
