
بچوں کے جنسی استحصال کی تفتیش اے ایس پی یا زائد رینک کا افسر کرے گا، عدالت
ملک اسد | ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 21 نومبر 2019Facebook CountTwitter Share0Translate

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات کی تحقیقات کے لیے ہدایت جاری کردیں جس کے تحت لازمی قرار دے دیا گیا کہ اس قسم کے کیسز کی تفتیش اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (اے ایس پی) کی سطح یا اس سے بلند رینک کا پولیس افسر کرے گا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بچے کے استحصال کے کیس میں درخواست ضمانت نمٹاتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پولیس تفتیش پر تنقید کی اور ہدایت دی کہ اس قسم کے کیسز کی تحقیقات کا میعار بہتر بنایا جائے۔
خیال رہے کہ درخواست گزار محمد ذیشان نے بارہ کہو پولیس اسٹیشن میں 20 اگست کو درج ہونے والے مقدمے میں ضمانت کی استدعا کی تھی، یہ مقدمہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 377 اور 511 کے تحت درج کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان: بچوں کے جنسی استحصال میں 33 فیصد اضافہ
مذکورہ مقدمے کی تفصیلات کے مطابق شکایت کنندہ کے بچے کو ایک مدرسے میں مبینہ جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ نامزد ملزم محمد ذیشان نے درخواست ضمانت میں موقف اختیار کیا کہ انہیں مقدمے میں بدنیتی کے تحت شامل کیا گیا جس کے پیچھے شکایت گزار کا مذموم مقصد تھا۔
اس سلسلے میں پولیس کی جانب سے ٹرائل کورٹ میں جمع کروائی گئی چارج شیٹ میں محمد ذیشان پر الزامات لگائے گئے تھے لیکن جسمانی ریمانڈ پر لیے جانے کے باوجود تحقیقات میں ایسا کوئی مواد نہیں ملا۔
پولیس کا کہنا تھا کہ واقعے کا کوئی گواہ مقدمے کی کارروائی سے منسلک نہیں تھا اور ایف آئی آر میں لگائے گئے الزامات غلط، فرضی اور جھوٹے ہیں۔
دوسری جانب اس حوالے سے تفتیشی افسر تنویر حسنین نے عدالت کو بتایا کہ تحقیقات صرف شکایت گزار کا بیان لینے تک ہی کی گئی۔
