

بھارتی انتخابات کے بعد پارلیمان کے ارکان کی تقریب حلف برداری ہوچکی ہے۔ گزشتہ منگل کو ارکان نے حلف اٹھایا، جبکہ مسلمان ارکان سے اردو میں حلف لیا گیا۔ حیدرآباد سے منتخب ہونے والے مسلمان رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے حلف اُٹھایا تو اس دوران کچھ اراکین پارلیمان نے ’’جے شری رام‘‘ اور ’’وندے ماترم‘‘ جیسے نعرے بلند کیے۔ اس دوران اسدالدین اویسی نے ہاتھ کا اشارہ کرکے اور زیادہ زور سے اور بلند آواز میں نعرے لگانے کےلیے کہا۔ حلف برداری کے بعد پارلیمان کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسدالدین اویسی کا کہنا تھا کہ امید کرتا ہوں کہ ان نعروں کے ساتھ ساتھ یہ لوگ آئین کی پاسداری اور مظفرپور میں ہلاک ہونے والے بچوں کو بھی یاد رکھیں گے۔
ممتاز بھارتی صحافی برکھادت نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ وندے ماترم گانا فرقہ پرستی نہیں، لیکن اگر مسلم رہنماؤں کی حلف برداری کے دوران یہ نعرہ بلند کیا جائے تو یہ فرقہ پرستی ہوگی۔ برکھادت نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں لکھا کہ اسے بھگوان رام کے نام کو بدنام کرنے کے مترادف کہا جائے گا۔
راقم کے خیال میں منتخب ارکان پارلیمان کی جانب سے یہ اقدام اقلیتوں کو ہراساں کرنے اور دھمکانے کے مترادف ہے۔ اگر پارلیمان میں اقلیتوں کو کھلے عام ہراساں کرنے کی ایسی مثالیں قائم ہوں گی تو اس سے ملک کے حالات مزید خراب ہوتے جائیں گے۔ اس کے منفی اثرات نچلی سطح تک جائیں گے۔ جس کے تنائج انتہائی خطرناک ہوں گے۔
ظاہر ہے جبکہ منتخب ارکان تعصب کا مظاہرہ کریں گے تو عوامی سطح پر اس نفرت کو بہت زیادہ شہ ملے گی اور جب بھی چار ہندو کہیں جمع ہوں گے انہیں کوئی تنہا اور نہتا مسلمان مل جائے گا تو اس کی جو یہ حالت بنائیں گے وہ سوچ کر بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ گئو رکھشا کے نام پر یہ سلسلہ ایک عرصے سے بھارت میں جاری ہے۔ پارلیمان میں ایسی حرکتیں انڈیا، انڈیا کے مسلمانوں، جمہوریت، آئین اور خود بھگوان رام کی بے حرمتی ہے۔
انڈیا میں گئو رکھشا کے نام پر مسلمانوں پر مظالم اور ہندوؤں کا تعصب دیکھ کر قائداعظم محمد علی جناح کےلیے دل سے دعا نکلتی ہے کہ انہوں نے پاکستان بنا کر ہم پر بہت بڑا احسان کیا۔ اگر ہم آج بھارت میں رہ رہے ہوتے تو چوتھے پانچویں درجے کے شہری ہوتے، عبادات میں آزادی نہ ہوتی۔ روز مار کھاتے۔ اب بھی اگر منتخب ارکان کا یہ حال ہے تو عام ہندوؤں کی سوچ کیا ہوگی؟
اس حوالے سے بھارتی مسلمانوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ بھارت میں ہندوؤں کی سوچ بدلیں، ہر دہشت گردی اور جرائم کو مسلمانوں کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ قانون بھی اکثر جگہوں پر بے بس دکھائی دیتا ہے۔ پولیس کئی مواقع پر چشم پوشی کرتی نظر آتی ہے۔ مسلمانوں کے معاملے میں امتیاز برتا جاتا ہے۔ اب تو سکھوں کے ساتھ بھی امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ ہندو ہندوستان کو صرف ہندوؤں کا ملک سمجھتے ہیں، جبکہ آئین اسے جمہوری ریاست قرار دیتا ہے۔ مگر انڈیا میں آئین اور قانون کی سنتا کون ہے؟ آئین اور قانون کی پاسداری ہوتی تو پارلیمان جیسے مقدس ایوان میں یہ غیر جمہوری رویہ اختیار نہ کیا جاتا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے، فطرت بدل نہیں سکتی۔
