

واضح رہے کہ ایران میں پیٹرول کی قیمتوں میں گزشتہ ہفتے اضافے کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے سامنے آئے تھے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ میں ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے آئی آر آئی بی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ‘ایرانی عوام تاریخ کی سب سے بڑی آزامائش میں کامیاب ہوگئی ہے اور دکھا دیا ہے کہ وہ صورتحال سے دشمنوں کو فائدہ حاصل نہیں ہونے دیں گے بھلے انہیں ملک کی انتظامیہ سے شکایت ہی کیوں نہ ہو’۔
مزید پڑھیں: ایران: 5 روز سے جاری مظاہروں میں 106 افراد ہلاک ہوئے، ایمنسٹی انٹرنیشنل
حسن روحانی کا کہنا تھا کہ ‘ان عناصر کے خلاف عوام کے حکومت کی حمایت میں گھروں سے نکل کر باہر آنا ایرانی عوام کی قوت کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا’۔
واضح رہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایران میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران 100 سے زائد مظاہرین ہلاک ہوئے ہیں جس کے بعد ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق ملک کے متعدد شہروں میں حکومت کی حمایت میں بھی ریلیاں نکالی گئی تھیں۔
سرکاری چینل نے گورگان شہر اور تہران کے جنوبی حصے شہریار میں ریلیاں دکھائیں جہاں اس سے قبل احتجاجی مظاہروں کے دوران کئی سیکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی ہلاک ہوئے تھے۔
ریاستی میڈیا نے ایران کی اعلیٰ سیکیورٹی ادارے کے سیکریٹری علی شمخانی کی تصاویر دکھائیں جن میں وہ بینر پکڑے تھے جس پر لکھا تھا کہ ‘امریکا اور اسرائیل کے دھوکوں کی موت ہو’۔
یہ بھی پڑھیں: ایران: پاسداران انقلاب کی حکومت مخالف مظاہرین کےخلاف فیصلہ کن کارروائی کی دھمکی
ایران نے امریکا، اسرائیل اور سعودی عرب سمیت غیر ملکی دشمنوں اور جلا وطن افراد سے منسلک ‘غنڈوں’ پر احتجاج کا الزام عائد کیا تھا۔
مظاہروں کا آغاز جمعے کے روز سے ہوا جب حکومت کی جانب سے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا تھا۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا تھا کہ احتجاج سیکیورٹی کا مسئلہ تھا، کوئی تحریک نہیں تھی اور اس سے کامیابی سے نمٹ لیا گیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے عینی شاہدین کی معلومات، تصدیق شدہ ویڈیوز اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی معلومات کے مطابق 21 شہروں میں تقریباً 106 مظاہرین ہلاک ہوچکے ہیں۔
تاہم اقوام متحدہ میں ایرانی سفیر نے ایمنسٹی کی رپورٹ کو ‘بے بنیاد الزامات اور حقائق کے برعکس’ قرار دیا تھا۔
ایران نے انٹرنیٹ پر پابندیاں عائد کردی ہیںں جس کی وجہ سے مظاہرین کی جانب سے سوشل میڈیا پر احتجاج کی ویڈیوز ڈالنا ناممکن ہوگیا ہے۔
حکام کا کہنا تھا کہ اب تک تقریباً 1 ہزار افراد کو گرفتار بھی کیا جاچکا ہے۔
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے دفتر کا کہنا تھاکہ انہیں رپورٹس ملی ہیں کہ درجنوں افراد کو ہلاک کردیا گیا ہے۔
انہوں نے انتظامیہ پر زور دیا کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے قوت کا استعمال نہ کیا جائے۔ A handout picture provided by the office of Iranian President Hassan Rouhani on December 31, 2017 shows Iran’s President Hassan Rouhani attending a cabinet meeting in the capital Tehran. Criticism is different to violence, warns Iran’s Rouhani. / AFP PHOTO / IRANIAN PRESIDENCY / HO / == RESTRICTED TO EDITORIAL USE – MANDATORY CREDIT “AFP PHOTO / HO / IRANIAN PRESIDENCY” – NO MARKETING NO ADVERTISING CAMPAIGNS – DISTRIBUTED AS A SERVICE TO CLIENTS ==
