

کہتے ہیں کہ انسان کو جو لفظ سننے میں سب سے زیادہ خوبصورت لگتا ہے، وہ اس کا نام ہے۔ دنیا میں آنے کے بعد انسان کو جو پہلا قانونی اثاثہ الاٹ ہوتا ہے، وہ اس کا نام ہی تو ہے۔ اپنی طرف سے تو سب ہی والدین اپنے بچوں کے پیارے پیارے نام رکھتے ہیں۔ مگر پھر پیار ہی سے کبھی کبھی ان ناموں کا وہ حشر کرتے ہیں کہ ان کا کوئی معنی و مفہوم ہی نہیں رہتا۔ اور پیار سے رکھے گئے وہ نام اس کے علاوہ ہیں جن کو انگریزی میں ’’نک نیم‘‘ کہا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کے نک نیم بھی عجیب ہوتے ہیں۔
عوام کے تو کیا کہنے! کچھ عرصے سے ہمارے سیاسی رہنماؤں کے ناموں پر ایسی ایسی بیان بازی ہورہی ہے کہ گمان ہوتا ہے کہ تیسری عالمی جنگ اسی بیان بازی پر ہی شروع ہوگی اور اس کی ابتدا پاکستان سے ہوگی۔ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ گزشتہ سے پیوستہ الیکشن سے پہلے لوڈشیڈنگ نے عوام کی چیخیں نکلوائی ہوئی تھیں۔ شہباز شریف صاحب نے بازو لہرا کر کہا کہ برسراقتدار آنے دو اگر چھ مہینے میں لوڈشیڈنگ بند نہ کردوں تو میرا نام بدل دینا۔ ابھی چھ مہینے بھی نہ گزرے تھے کہ اپوزیشن کے کیمپوں سے مطالبہ شروع ہوگیا ’’بدلو نام، بدلو نام‘‘۔ وہ تو شکر ہے کہ جیسے تیسے لوڈشیڈنگ میں کسی حد تک کمی آگئی، ورنہ قوم بیچاری جنتریاں اٹھائے پھرتی اور کوئی نام نہ ملتا تو کیا ہوتا۔
نام کے ہنگامے نے گزشتہ الیکشن سے پہلے اس وقت بھی انگڑائی لی جب ایک دن آصف علی زرداری اپنے تینوں بچوں کے ہمراہ تشریف لائے اور اعلان کیا کہ ان کے تینوں بچوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنی عظیم ماں اور نانا کو خراج عقیدت پیش کرنے کےلیے اپنے نام کے ساتھ ’’بھٹو‘‘ لگا رہے ہیں۔ ناموں کی نئی ترتیب کچھ یوں بنی بلاول بھٹو زرداری، بختاور بھٹو زرداری، آصفہ بھٹو زرداری۔ اب اپوزیشن کو پھر موقع مل گیا کہ انہوں نے بھٹو کا نام کیوں ساتھ لگایا ہے؟ بلکہ بات بے بات پیپلز پارٹی کو چڑانا شروع کردیا۔ حالانکہ بھٹو کے نام کا جادو تو یوں لوگوں کے سر چڑھ کر بولا تھا کہ جب ہم چھوٹے تھے تو پنجاب میں بھی بہت سے لوگوں نے اپنے بچوں کے نام ’’بھٹو‘‘ رکھے ہوئے تھے۔ تب ہمیں معلوم تک نہ تھا کہ بھٹو سندھ کا کوئی قبیلہ ہے۔ آج بھی پنجاب کے گلی محلوں اور گاؤں میں بہت سے بھٹو مل جائیں گے۔
کہتے ہیں آصف علی زرداری سے شادی کی بات چیت چلی تو محترمہ بینظیر بھٹو نے صرف ایک ہی شرط رکھی تھی کہ وہ اپنے نام کے ساتھ لگا ہوا اپنے والد کا نام نہیں ہٹائیں گی (کاش کچھ اور بھی شرطیں رکھ دی ہوتیں)۔ یہ ہر بیٹی کی اپنے باپ کے ساتھ محبت ہے۔ مگر یہاں شادی کے بعد پہلا کام ہی یہ کیا جاتا ہے کہ لاؤ شناختی کارڈ کے فارم دلہن کا نام درست کریں۔ اور پھر والد کا نام ہٹا کر شوہر کا نام لگادیا جاتا ہے۔ لو جی نام درست ہوگیا۔ یہ الگ بات ہے کہ شادی کتنا عرصہ قائم رہتی ہے۔ ایسی ہی قسمت کی ماری ایک عورت جب چار سال میں چوتھی بار نام کی درستی کےلیے نادرا کے دفتر گئی، تو اہلکار نے مشورہ دیا اس سال رہنے دیں، اگلے سال پھر درست کرنا پڑے گا۔
یہ سیاپا بھی عورتوں کی ہی قسمت میں لکھا گیا ہے، جبکہ کسی مرد نے آج تک جھوٹے منہ بھی بیوی کا نام اپنے نام کے ساتھ نہیں لگایا۔ اور ہمارا دین تو کہتا ہے کہ کوئی غلام بھی خریدو تو اس کے نام سے اس کی کنیت نہ بدلو۔ ہاں پیار سے کسی بھی اچھے نام سے پکارنے کی اور بات ہے۔ ہمارے ایک عزیز ہر آٹھ دس دن بعد اپنی اہلیہ کو ایک نئے نام سے پکارتے تھے۔ ایک دن کسی نے پوچھ لیا تو کہنے لگے ’’میاں مجبوری ہے، بیوی تو نہیں بدلی جاسکتی، اسی کے نام بدل بدل کر دل خوش کرلیتے ہیں‘‘۔
کل ہماری ایک دوست بس رونے کو تھی کہ بچے بہت بدتمیز ہوگئے ہیں۔ اوپر سے چھٹیاں ہیں۔ سارا دن ایک دوسرے سے لڑتے ہیں اور ایک دوسرے کے الٹے سیدھے نام رکھتے ہیں۔ دونوں بڑے چھوٹے کو ’’سلیکٹڈ، سلیکٹڈ‘‘ کہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ دادا دادی کا زیادہ پیارا ہے۔ دادا شوگر کے مریض ہیں۔ ملازمہ نے بتایا کہ جب وہ چھپ چھپ کے آم کھاتے ہیں تو بڑے دونوں ان کی وڈیو بنا کر ان کو بلیک میل کرتے ہیں۔ چھوٹا دادی کے پاس شکایت لگاتا ہے کہ وہ مجھے الٹے ناموں سے پکارتے ہیں۔ تو وہ کہتی ہیں ’’کہنے دو ان کو، نام میں کیا رکھا ہے؟‘‘
چھوٹا چیخ کر کہتا ہے ’’نام میں بھی کچھ نہ کچھ تو رکھا ہے۔ آپ نے ٹی وی میں نہیں دیکھا، سب کیسے لڑتے ہیں۔ ایک دوسرے کو فلاں، فلاں اور فلاں کہنے پر‘‘
