
بہاولنگر میں جب سے پاسپورٹ آفس بنا ہے بدقسمتی سے تب سے ہی ادھر کرپشن کا بازار گرم ہے
دفتری عملے کے 3 کرپٹ ترین ملازم
شاھد، ڈاکٹر غلام حسین اور الطاف گھمن ان تینوں نے حرامخوری کی تمام حدیں پار کی ہوئ ہیں
ان کا طریقہِ حرامخوری کچھ اس طرح سے ہے
جب کوئ بھی شہری پاسپورٹ کی بینک فیس جمع کروا کر پاسپورٹ آفس جاتا ہے تو کمرہ نمبر 1 میں اُس کے کاغذات چیک کئے جاتے ہیں مثلاً ڈومیسائل، ووٹ نمبر،نکاح نامہ،والدین کے شناختی کارڈ وغیرہ. ان میں سے جو چیز بھی کم ہو تو شہری کو کہا جاتا ہے کہ یہ لے کر آؤ
اب کوئ بیچارہ فورٹ عباس سے آیا ہوتا ہے اور کوئ مروٹ سے، تو لوگ بہت پریشاں ہو کر جب باہر نکلتے ہیں تو باہر بیٹھے ایجنٹ اُن کو آفر دیتے ہیں کہ ہمیں آپ 1000 روپے دیں تو ہم آپ کا کام کروا دیں گے. بیچارہ شہری رعایت کا کہتا ہے تو ایجنٹ کہتا ہے 700 اندر دینا ہوتا ہے 300 مجھے بچنا ہے آپ 100 روپے کم دیں دیں.
لوگ سوچتے ہیں کہ واپس جائیں گے اور کل کا دن پھر ضائع کریں گے اور 500 کرایہ لگائیں گے اس سے بہتر ہے کے ابھی 900 دے کر ہی کام کروا لیں
ایجنٹ پیسے لے کر مخصوص رنگ کی قلم سے فارم پر دستخط کر دیتا ہے اور بندہ اندر جا کر سکون سے پاسپورٹ کا پروسس کرواتا ہے اور شام کو رنگ کے مطابق دفتر والے بیرونی ایجنٹوں سے چٹی وصول کر لیتے ہیں. ایک خاص ایجنٹ باقی تمام ایجنٹس سے چٹی وصول کر کے شام تقریباً 4 سے 5 بجے کے درمیان دفتر جاتا ہے اور چٹی با حفاظت طریقے سے اندر پہنچاتا ہے.
اندر والے اس چٹی کو کتنے حصوں میں تقسیم کرتے ہیں اور اوپر کس کس تک کتنا حصہ پہنچاتے ہیں یہ معلوم نہیں
ایک دن میں اوستاً 125 پاسپورٹ بنتے ہیں تو تقریباً 100 چٹی میں بنتے ہیں
یعنی ایک دن کی 70,000 روپے چٹی اندر جاتی ہے اور ہفتہ اتوار نکال کر ایک مہینے کا 15 لاکھ روپے پاسپورٹ آفس بہاولنگر کماتا ہے اور سرکار سے تنخواہیں بھی وصول ہوتی ہیں
اور تو اور 12 بجے گیٹ بھی بند کر دیتے ہیں کہ ٹائم ختم ہوگیا ہے. اب صرف چٹی والے اندر جا سکتے ہیں
یہ کام سرِعام چلتے ہوئے ایک عرصہ ہو گیا لیکن کوئ پوچھنے والا نہیں
میری درخواست ہے ذمہ داروں سے، چئیرمین نیب سے اور مقدس و غیر مقدس، حساس و غیر حساس اداروں سے کہ خدارا اس ظلم کو بند کرواؤ اور ان حرامخوروں کا احتساب کرو اور ان کو صوبہ بدر کرو تاکہ ان کے گندے وجود سے بہاولنگر اور گردونواح کو پاک کیا جائے
کوئی بہاول نگر کا دوست اس پر رپورٹنگ کرے تو مہربانی ہو گی۔
