

اسلام آباد: ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (اے آئی آئی بی) نے کراچی بس ریپڈ ٹرانزٹ ریڈ لائن منصوبے کے لیے 7 کروڑ 18لاکھ 10 ہزار ڈالر قرض کی منظوری دے دی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کراچی بس ریپڈ ٹرانزٹ ریڈ لائن منصوبے سے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا موثر اور مستحکم نظام فراہم کیا جائے گا۔
ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک نے 11 نومبر کو بیجنگ میں اپنے ہیڈکوارٹرز میں منعقد ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں قرض کی منظوری دی۔
منصوبے میں 24.2 کلومیٹر ریڈلائن کا مرکزی کاریڈور، شہر کے وسط میں تمام بس ریپڈ ٹرانزٹ سے ضم ہوتا ہوا 2.4 کلومیٹر طویل کامن کاریڈور اور کاریڈور کو دیگر علاقوں سے ملانے کے لیے آف کاریڈور ڈائریکٹ اور فیڈر سروسز شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: کراچی میں بی آر ٹی منصوبے کیلئے 23 کروڑ 50 لاکھ ڈالر قرض منظور
علاوہ ازیں اس میں جس میں بی آر ٹی آپریشنز کا قیام اور کمپریسڈ نیچرل گیس-ہائبرڈ فلیٹ اور سسٹمز کی خریداری بھی شامل ہے۔
فنانسنگ پلان کے مطابق مںصوبے پر 50 کروڑ 33 لاکھ 30 ہزار ڈالر لاگت آئے گی جس میں سے ایشین ڈیولپمنٹ بینگ 23 کروڑ 50 لاکھ ڈالر ادا کرے گا، فرنچ ڈیولمپنٹ ایجنسی 7 کروڑ 18 لاکھ 11 ہزار ڈالر، گرین کلائمٹ فنڈ ایک کروڑ 18 لاکھ ڈالر کی گرانٹ کے ساتھ 3 کروڑ 70 لاکھ ڈالر اور سندھ حکومت 7 کروڑ 57 لاکھ 11 ہزار ڈالر فراہم کرے گی۔
کراچی بس ریپڈ ٹرانزٹ ریڈ لائن منصوبہ آئندہ سال اگست میں شروع کیا جائے جس سے موثر، محفظ اور کم وقت میں سفر سے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام میں بہتری آئے گی جو اعلیٰ معیار، قابل رسائی اور سستی ٹرانسپورٹ فراہم کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: ریپڈ ٹرانزٹ بس سسٹم، کراچی کے شہری اذیت میں؟
منصوبے کی تکمیل کی مدت دسمبر 2023 کا اواخر طے کی گئی ہے۔
یہ امکان ہے کہ ٹرانسپورٹ کا نیا نظام 3 لاکھ 20 ہزار مسافروں کو روزانہ کی بنیاد پر سفر کی سہولت فراہم کرے گا، بی آر ٹی کاریڈور پر بس کمرشل کی اوسط رفتار میں 25 کلومیٹر فی گھنٹہ تک اضافہ کرےگا اور سی این جی ہائبرڈ بسوں کے استعمال سے گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں سالانہ کمی لائے گا۔
کراچی کا ٹرانسپورٹیشن کا موجودہ نظام سفر کے طویل وقت، پرائیویٹ اور پیرا ٹرانزٹ طریقوں میں اضافے، ٹریفک کے کمزور انتظام اور پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی کی وجہ سے اس مقصد کے لیے ٹھیک قرار نہیں دیا جاسکتا۔
شہر میں ٹرانسپورٹ سروسز غیر رسمی پیرا ٹرانزٹ وہیکلز اور 4 ہزار کے قریب نجی بسوں کے ذریعے فراہم کی جاتی ہیں جس سے روزانہ 28 لاکھ مسافر مستفید ہوتے ہیں۔
یہ غیر منظم سروسز بے قاعدہ ہیں جن میں شیڈول، اسٹاپس کی کمی ہیں اور صارفین کے معیار پر پورا نہیں اترتیں۔
دوسری جانب پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیورز ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں اور اپنی مرضی سے مسافروں کو بٹھاتے ہیں ییا گاڑی بھرنے تک انتظار کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں گاڑیوں میں چڑھنا بزرگوں بچوں اور جسمانی طور پر معذور افراد کے لیے چیلنجنگ ہے جبکہ مسافر عام طور پر چلتی ہوئی بسوں کی چھت پر بیٹھے یا ان پر لٹکے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں
