

عظیم شاعرہ پروین شاکر 24 نومبر 1952 کو کراچی میں پیدا ہوئیں، انہیں اردو کے منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت ہی کم لوگوں کے نصیب میں لکھی ہوتی ہے۔
انہوں نے انگلش لٹریچر اور زبان دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔
انہوں نے بہت چھوٹی عمر میں شعر و شاعری کا آغاز کیا، پروین سے پہلے کسی شاعرہ نے نسوانی جذبات کو اتنی نزاکت سے بیان نہیں کیا۔
انہوں نے الفاظ اور جذبات کو ایک انوکھے تعلق میں باندھ کر سادہ الفاظ میں نسائی انا، خواہش اور انکار کو شعر کا روپ دیا۔
بخت سے کوئی شکایت نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
ان کی شاعری میں روایت سے انکار اور بغاوت بھی نظر آتی ہے، انہوں نے اپنی شاعری میں صنف نازک کے جذبات کی تصاویر بنائیں اور اس کے دکھ اور کرب کو نظموں میں ڈھالا۔
ابتداء میں بینا کے نام سے پہچانی جانے والی شاعرہ کی پہلی کتاب خوشبو 1976 میں شائع ہوئی جبکہ ان کی دیگر مشہور کتابوں میں انکار، صدِبرگ، خودکلامی اور کف آئینہ شامل ہیں۔
انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ کالم نویسی بھی کی، اس کے علاوہ انہیں ادب میں بہترین خدمات پر پرائڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔
26 دسمبر 1994 کو اسلام آباد میں ایک ٹریفک حادثے میں وہ 42 سال کی عمر میں مالک حقیقی سے جا ملیں۔
پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے کئی برس گزر چکے ہیں، مگر ان کی شاعری آج بھی خوشبو کی طرح کو بہ کو پھیلتی محسوس ہوتی ہے۔
مر بھی جاؤں تو کہاں، لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے
